بدلی کا چاند
سورج وہ دیکھو ڈوب گیا ظلمت کا نشان لہرانے لگا
ماہتاب وہ ہلکے بادل سے چاندی کے ورق برسانے لگا
وہ سنوے پن پر میدان کی ہلکی سی سباحت دوڑ چلی
تھوڑا سا ابھر کر بادل سے وہ چاند جبین جھلکانے لگا
لو پھر وہ غائطیں چاک ہوئیں ظلمت کا قدم تھرانے لگا
بادل میں چھپا تو کھول دیئے بادل میں دریچے ہیرے کے
گردوں پہ جو آیا تو گردوں دریا کی طرح لہرانے لگا
سمٹی جو غائطہ تاریکی میں چاندی کے سفینے لے کے چل
اسنکی جو ہوا تو بادل کے گرداب میں گھوٹے کھانے لگا
غرفوں سے جو جھانکا گردوں کے امواج کی نبضیں تیز ہوئیں
حلقوں میں جو دوڑا بادل کے کوہسار کا سر چکرانے لگا
پردہ جو اُٹھایا بادل کا دریا پہ تبسم دوڑ گیا
چلمن جو گرائی بدلی کی میدان کا دل گھبرانے لگا
ابھرا تو تجلی دوڑ گئی ڈوبا تو فلک بے نور ہوا
الجھا تو سیاہی دوڑا دی سلجھا تو ضیا برسانے لگے
کیا کوششِ نور و ظلمت ہے کیا قید ہے کیا آزادی ہے
انسان کی تڑپتی فطرت کا مفہوم سمجھ میں آنے لگا