Amreen khan

Add To collaction

بدلی کا چاند

سورج وہ دیکھو ڈوب گیا ظلمت کا نشان لہرانے لگا

ماہتاب وہ ہلکے بادل سے چاندی کے ورق برسانے لگا

وہ سنوے پن پر میدان کی ہلکی سی سباحت دوڑ چلی

تھوڑا سا ابھر کر بادل سے وہ چاند جبین جھلکانے لگا

لو پھر وہ غائطیں چاک ہوئیں ظلمت کا قدم تھرانے لگا

بادل میں چھپا تو کھول دیئے بادل میں دریچے ہیرے کے

گردوں پہ جو آیا تو گردوں دریا کی طرح لہرانے لگا

سمٹی جو غائطہ تاریکی میں چاندی کے سفینے لے کے چل

اسنکی جو ہوا تو بادل کے گرداب میں گھوٹے کھانے لگا

غرفوں سے جو جھانکا گردوں کے امواج کی نبضیں تیز ہوئیں

حلقوں میں جو دوڑا بادل کے کوہسار کا سر چکرانے لگا

پردہ جو اُٹھایا بادل کا دریا پہ تبسم دوڑ گیا

چلمن جو گرائی بدلی کی میدان کا دل گھبرانے لگا

ابھرا تو تجلی دوڑ گئی ڈوبا تو فلک بے نور ہوا

الجھا تو سیاہی دوڑا دی سلجھا تو ضیا برسانے لگے

کیا کوششِ نور و ظلمت ہے کیا قید ہے کیا آزادی ہے

انسان کی تڑپتی فطرت کا مفہوم سمجھ میں آنے لگا

   5
0 Comments